✍️ کالم: “جنگ یا امن؟”
1. پس منظر اور تازہ حملہ
گزشتہ ایک ہفتے سے، اسرائیل اور ایران میں کشیدگی میں اضافہ ہو رہا تھا، اور ایران نے اسرائیل پر میزائل داغے؛ جس کے بعد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے خود امریکی بمباری کا حکم دیا، ان اہداف میں فردو، نطنز اور اسفہان کے نیوکلیئر سینٹر شامل تھے ۔ ٹرمپ نے اسے “لویائی” اور “بشکل بے مثال کامیابی” قرار دیا ۔
2. تکنیکی زاویہ اور فوجی حکمتِ عملی
اس حملے میں جدید B‑2 اسپیرٹ اسٹیل تھ بمبروں سے گہرائی میں تقریباً 60 میٹر کے نیچے جانے والے Massive Ordnance Penetrator (MOP) بمز کا استعمال ہوا، جن کا ہدف مضبوط زیرِ زمین عمارتوں کو نشانہ بنانا تھا ۔ طویل فاصلے سے Tomahawk میزائل بھی استعمال کیے گئے جو امریکی مفرط ٹیکنالوجی اور ٹھوس دفاعی قوت کا عملی مظاہرہ ہیں۔
3. عالمی اور علاقائی ردعمل
ایران نے اس حملے کو بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے شدید مذمت کی، اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے اس کو “ خطرناک کشیدگی” اور عالمی امن کے لیے سنجیدہ خطرہ قرار دیا ۔ ایران و اسرائیل کے علاوہ خلیجی ممالک میں بھی حالات غیر مستحکم ہو رہے ہیں۔
4. داخلی امریکی سیاست
امریکا میں بھی آنے والی فوجی مداخلت پر تقسیم نظر آ رہی ہے۔ صدر ٹرمپ نے اس کو ضروری کہا تو جبکہ کچھ قانون ساز اور سیاسی حلقوں میں اس کو آئینی اختیار کی خلاف ورزی قرار دیا گیا مثلاً کانگریس سے مشاورت نہ کرنے پر شدید سوالات اٹھ رہے ہیں ۔
5. امن کی امید یا مزید عسکریت؟
ٹرمپ نے اعلان کے ساتھ، “اب امن کا وقت ہے” اور “اگر امن نہ ہوا تو مستقبل کے حملے آسان ہونگے” جیسے بیانات دیے ۔ مگر حقیقت میں، اس سے صرف تنازع مزید گہرا ہو سکتا ہے، کیونکہ ایران نے کڑی انتقامی دھمکی دی ہے اور خطے میں غیر ملکی مداخلت کے خلاف شدت سے آواز اٹھ رہی ہے۔
🔚 نتیجہ:
ٹرمپ کا یہ اعلان اس تنازعے میں امریکہ کی براہِ راست مداخلت کی واضح علامت ہے۔ اگرچہ وہ امن کی بات کر رہے ہیں، لیکن اسرائیل ایران کے خلاف اپنی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔ عالمی برادری کے لیے یہ ایک آزمائش ہے: کیا یہ عسکری دباؤ خطے میں قیام امن کر پائے گا یا کسی بڑے جنگی تنازعے کا باعث بنے گا؟ وقت بتائے گا۔