پاکستان کے شمالی علاقہ جات اپنی قدرتی خوبصورتی، گلیشیئرز اور سرسبز جنگلات کی وجہ سے دنیا بھر میں شہرت رکھتے ہیں۔ ناران اور کاغان وادی ہر سال لاکھوں سیاحوں کو اپنی طرف کھینچتی ہیں۔ مگر بدقسمتی سے تیزی سے بڑھتی ہوئی کمرشل تعمیرات، ہاؤسنگ اسکیمیں اور ہوٹلنگ کے دباؤ نے اس خطے کے ماحولیاتی توازن کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔
اسی پس منظر میں ایڈووکیٹس زاہد خان جدون اور شاہد کمال نے پشاور ہائی کورٹ ایبٹ آباد بینچ میں ایک رٹ پٹیشن دائر کی، جس میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ ناران کے “سہوچ ایریا” میں ہاؤسنگ اسکیمیں اور پلازے تعمیر ہو رہے ہیں، جس سے جنگلات کی کٹائی اور گلیشیئرز کو شدید نقصان پہنچ رہا ہے۔ عدالت نے اس کیس کی سماعت کے دوران سرکاری وکلاء اور متعلقہ محکموں کو طلب کیا۔
سماعت کے دوران جب عدالت نے سرکاری نمائندوں اور وکلاء سے سوالات کیے تو وہ این او سیز اور ماحولیاتی اثرات کے حوالے سے تسلی بخش جواب نہ دے سکے۔ اس پر عدالت نے نہ صرف مزید تفصیلات طلب کیں بلکہ ریسپانڈنٹس نمبر 1، 2 اور 5 کو آئندہ سماعت پر ذاتی طور پر پیش ہونے کی ہدایت دی۔ عدالت نے خاص طور پر کہا کہ یہ رپورٹس پیش کی جائیں کہ کس طرح این او سیز جاری کیے گئے اور کس بنیاد پر ہاؤسنگ اسکیموں کی اجازت دی گئی۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ عدالت نے عارضی حکم امتناعی (Interim Relief) دیتے ہوئے حکم دیا کہ اگلی سماعت تک کوئی بھی فرد یا ادارہ سُچ ایریا میں کسی قسم کی نئی تعمیرات شروع نہیں کرے گا۔ اس فیصلے کا مقصد ماحولیاتی تباہی کو فوری طور پر روکنا ہے۔
ماحولیاتی تحفظ کی اہمیت
یہ فیصلہ صرف ایک علاقے کی تعمیرات کو روکنے کے لیے نہیں بلکہ ایک بڑے پیغام کے طور پر سامنے آیا ہے۔ پاکستان موسمیاتی تبدیلی کے خطرات سے دوچار ہے۔ گلیشیئرز کا تیزی سے پگھلنا، بارشوں کے پیٹرن میں تبدیلی اور جنگلات کی کٹائی آنے والے برسوں میں بڑے بحران کو جنم دے سکتے ہیں۔ ناران جیسے حساس ماحولیاتی زون میں ہوٹلوں، ریزورٹس اور ہاؤسنگ اسکیموں کی اجازت دراصل آنے والی نسلوں کے مستقبل سے کھیلنے کے مترادف ہے۔
وکلاء کا کردار
ایڈووکیٹس زاہد خان جدون اور شاہد کمال نے عدالت میں اس مقدمے کو نہ صرف قانونی دلائل کے ساتھ پیش کیا بلکہ ماحولیاتی حقائق کو بھی اجاگر کیا۔ ان کا مؤقف تھا کہ ناران کی خوبصورتی اور گلیشیئرز کی حفاظت قومی ذمہ داری ہے اور اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو خطہ ناقابلِ تلافی نقصان کا شکار ہو جائے گا۔
پشاور ہائی کورٹ ایبٹ آباد بینچ کا یہ فیصلہ ماحولیاتی انصاف کی طرف ایک تاریخی قدم ہے۔ عدالت نے واضح پیغام دیا ہے کہ ترقی اور کمرشل منصوبے اپنی جگہ لیکن ماحولیات کی قربانی دے کر یہ ترقی ملک کے لیے بوجھ بن جائے گی۔ اب حکومت اور متعلقہ اداروں پر لازم ہے کہ وہ عدالت کے احکامات پر سختی سے عمل درآمد کریں اور مستقبل کے منصوبے ماحولیاتی اثرات کو مدنظر رکھتے ہوئے ترتیب دیں۔
اگر یہ فیصلے سختی سے لاگو کیے گئے تو یہ نہ صرف ناران بلکہ پورے پاکستان کے قدرتی وسائل کو بچانے کی سمت میں ایک بڑی کامیابی ہوگی۔
