خیبر پختونخوا کی تاریخ میں کرپشن کے کئی واقعات دیکھنے کو ملے ہیں، لیکن حالیہ اسکینڈل نے نہ صرف حکومتی اداروں بلکہ ان شخصیات کی ساکھ پر بھی سوالیہ نشان لگا دیا ہے جنہیں ہم ہمیشہ دیانت داری کا مظہر سمجھتے آئے تھے۔ (سی اینڈ ڈبلیو اپر کوہستان) (نیشنل بینک آف پاکستان) اپر کوہستان، چند پرائیویٹ بینکوں، اور اپر کوہستان کے (اکاؤنٹ آفس) نے مل کر صوبے کے خزانے کو اربوں روپے کا نقصان پہنچایا ہے۔
دراصل یہ رقم لیپس فنڈ ہے، جو ترقیاتی منصوبوں کے لیے استعمال ہونا تھی۔ یہ رقم خرچ نہ ہونے کی صورت میں خزانے میں واپس آ جاتی ہے، ان فنڈز کو غیر قانونی طریقے سے اپر کوہستان منتقل کیا گیا اور ایک منظم سازش کے تحت اربوں روپے کی یہ رقم نکال کر ہڑپ کر لی گئی۔
یہ معاملہ 2013 سے جاری ہے، جب لاکھوں روپے کے چیک بے نامی کمپنیوں کو دیے جانے کا سلسلہ شروع ہوا۔ تاہم، 2020 سے 2024 کے دوران کرپشن نے ایک نیا رخ اختیار کیا، اور اب کروڑوں روپے کے چیک جاری کیے جانے لگے۔ 2020 اور 2021 میں خاص طور پر پانچ پانچ اور چھے چھے کروڑ کے چیک نیشنل بینک اور دیگر پرائیویٹ بینکوں کو سی اینڈ ڈبلیو ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے بھیجے گئے۔ ان چیکز کو کیش کروانے کے عمل میں بینکوں اور اکاؤنٹ آفس کا کلیدی کردار رہا، جہاں وہ قانونی لوازمات، جو چیک کیش کرنے کے لیے ضروری ہوتی ہیں، مکمل نہ ہونے کے باوجود اپنی طرف سے جعلی کاغذات یا دستخط لگا کر ان لوازمات کو پورا کرتے اور چیک کیش کروا دیتے تھے۔ یہ پورا عمل نہ صرف حکومتی نظام کی کمزوری کو ظاہر کرتا ہے بلکہ بینکنگ سیکٹر اور اکاؤنٹ آفس کی ملی بھگت کی ایک سنگین مثال بھی ہے۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ اس اسکینڈل میں وہ “وائٹ کالر” شخصیات بھی شامل تھیں، جن کے بارے میں تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا کہ وہ کرپشن جیسے گھناؤنے عمل میں شامل ہوں گی۔ مختلف اداروں میں تعینات افسران اور عملے کے وہ لوگ جو بمشکل اپنی ماہانہ ضروریات پوری کرتے تھے اور عام زندگی بسر کر رہے تھے، لیکن آج انہی افراد نے ایبٹ آباد، اسلام آباد، اور مانسہرہ جیسے مہنگے ترین شہروں کے پوش علاقوں میں پراپرٹیز خریدی ہیں۔ ان افراد نے اپنی لوٹی ہوئی دولت کو اپنے عزیز و اقارب پر بھی لٹایا ہے۔ انہوں نے نہ صرف خود کے لیے عالیشان گھر بنائے بلکہ اپنے رشتہ داروں کے لیے بھی پرتعیش رہائش گاہیں فراہم کیں۔ یہ سب کچھ اس لوٹی ہوئی دولت کی بدولت ممکن ہوا جو عوام کی فلاح و بہبود کے لیے مختص کی گئی تھی۔
صرف یہی نہیں، ان افراد نے اپنی لوٹی ہوئی دولت کو اپنی سرمایہ کاری کے ذرائع میں بھی استعمال کیا ہے۔ اسلام آباد اور ایبٹ آباد کے مشہور گاڑیوں کے شورومز میں انویسٹمنٹ کر رکھی ہے، جہاں انہوں نے اپنے پیسے کو مزید بڑھانے کے لیے لوٹے ہوئے وسائل کا استعمال کیا۔ ان کا مقصد صرف اپنے ذاتی مفادات کا حصول تھا اور عوامی خزانے کو مکمل طور پر نظرانداز کیا گیا۔
اس اسکینڈل میں صرف سی اینڈ ڈبلیو ڈیپارٹمنٹ کے اہلکار ہی شامل نہیں بلکہ نیشنل بینک آف پاکستان کے اعلی عہدے پر فائض افسر بھی ملوث ہے ابتدائی طور پر بینک کے اعلی عہدے پر فائز افسر کے جعلی دستخطوں کے ذریعے رقم کی غیر قانونی منتقلی کی سہولت فراہم کی گئی، جو کہ بینک کے کمپیوٹر اپ نے کیے۔ جب بینک اعلی افسر کو یہ علم ہوا کہ ان کے دستخط جعلی تھے، تو پھر اعلی افسر بھی اس کرپشن کی کہانی کا حصہ بن گیا اور اس میں شامل ہو گیا۔ اس کے بعد اعلی افسر کو بھی اس معاملے میں سہولت فراہم کی گئی اور اس نے اس غیر قانونی عمل میں بھرپور حصہ ڈالا۔
یہ ایک منظم سازش تھی جس میں بینک اور حکومتی محکموں کے اہم افراد شامل تھے، جنہوں نے عوام کے پیسوں کو ذاتی مفادات کے لیے استعمال کیا۔ اس سے ایک واضح پیغام ملتا ہے کہ نہ صرف سیاستدان بلکہ بینکنگ سیکٹر اور سرکاری محکمے بھی کرپشن کے گھناؤنے عمل میں شریک ہو سکتے ہیں۔
سی اینڈ ڈبلیو، بینک، اکاؤنٹ ڈیپارٹمنٹ، چند ٹھیکیداران اور بعض مقتدر حلقے اس سازش میں برابر کے شریک تھے۔ ان تمام افراد نے مل کر ایک ایسا نیٹ ورک بنایا جس کے ذریعے اربوں روپے کی رقم کو عوام کے مفاد میں استعمال کرنے کے بجائے ذاتی مفادات کے لیے ہڑپ کر لیا گیا۔ یہ لوگ اپنے ذاتی مفادات کے حصول کے لیے وہ تمام وسائل استعمال کرتے ہیں جو انہیں سرکاری محکموں اور طاقتور افراد کے ذریعے حاصل ہوتے ہیں۔
اس اسکینڈل کا سب سے زیادہ نقصان خیبر پختونخوا کے ان غریب عوام کو ہوا ہے، جو پہلے ہی بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔ ترقیاتی منصوبے جو عوام کو ریلیف دینے کے لیے تھے، وہ یا تو معطل ہیں یا مکمل طور پر ناکام ہو چکے ہیں۔
یہ واقعہ نہ صرف کرپشن کی بدترین مثال ہے بلکہ یہ اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ ہمارے نظام میں موجود عناصر کس طرح عوام کے وسائل کا استحصال کرتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں عوام کی خدمت کا ذمہ دیا گیا تھا، لیکن انہوں نے عوام کے وسائل کو اپنے ذاتی مفادات کے لیے استعمال کر لیا۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ اس اسکینڈل کی آزادانہ اور غیر جانبدار تحقیقات کی جائیں۔ ملوث افراد، چاہے وہ کسی بھی عہدے پر فائز ہوں یا کسی بھی اثر و رسوخ کے حامل ہوں، ان کو قانون کے کٹہرے میں لانا ضروری ہے۔ عوام کا اعتماد اسی صورت بحال ہو سکتا ہے جب کرپٹ عناصر کو نشان عبرت بنایا جائے۔
میں اپنے حصے کی کوشش کرتے ہوئے اس اسکینڈل کی حقیقت سامنے لانے کے لیے قانونی راستہ اختیار کر رہا ہوں۔ میں نے رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ (RTI) کے تحت متعلقہ اداروں کو درخواستیں بھیج دی ہیں اور ان سے تمام ضروری ریکارڈ طلب کیا ہے۔ اگر ادارے ہمیں ریکارڈ فراہم نہیں کریں گے تو ہم عدالت کا دروازہ کھٹکھٹائیں گے اور قانونی جنگ کے ذریعے حقائق عوام کے سامنے لائیں گے۔ جیسے ہی یہ ریکارڈ ہمارے ہاتھ لگے گا، ہم اس واقعے کے تمام پہلو مزید کھول کر آپ کے سامنے رکھیں گے۔ اس معاملے کی تہہ تک پہنچنا اور ملوث عناصر کو بے نقاب کرنا ہماری اخلاقی اور پیشہ ورانہ ذمہ داری ہے۔
اس تمام صورتحال میں ایک اور حیرت انگیز پہلو سامنے آیا ہے۔ نیشنل بینک کے ایک معمولی درجے کے ملازم نے اربوں روپے کی لوٹ مار کی اور اب وہ اپنے خاندان کے ساتھ بیرون ملک منتقل ہونے کی تیاری کر رہا ہے۔ اس شخص نے پولیس کلیرنس کے لیے کوہستان لوئر پولیس میں درخواست دی ہے، تاکہ وہ اپنی فرار کی کوشش کامیاب بنا سکے۔ میں پولیس ڈیپارٹمنٹ سے درخواست کرتا ہوں کہ اس شخص کو پولیس کلیرنس سرٹیفیکیٹ نہ دیا جائے کیونکہ اس نے خیبر پختونخوا کے خزانے کو بے تہاشا نقصان پہنچایا ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ اسے انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے اور اس کے خلاف سخت قانونی کارروائی کی جائے۔ اس شخص کی غیر قانونی دولت کا حساب لیا جائے اور اس کی بے گناہ فرار کی کوششوں کو ناکام بنایا جائ