اب روایتی سیاست کا وقت ختم ہو چکا ہے: ایک انقلاب کی ضرورت
ہمارے ملک میں سیاسی حالات جس نہج پر پہنچ چکے ہیں، وہ ایک سنگین سوالیہ نشان بن چکے ہیں۔ جب ریاست کے ذمہ دار اور حکمران ہی قانون سازی کو عوامی امنگوں کے برعکس استعمال کریں، تو ایسے وقت میں خاموش رہنا جرم کے مترادف ہے۔ ہم ایسے کسی قانون کو تسلیم نہیں کرتے جو کسی خفیہ ایجنڈے یا بیرونی دباؤ کے تحت نافذ کیا جائے اگر یہی روش جاری رہی، تو ہم اسے صرف ایک سیاسی تنازعہ نہیں بلکہ ایک نظریاتی جنگ سمجھیں گے
یہ جنگ پاکستان اور بھارت کے درمیان نہیں، بلکہ پاکستان اور مودی سرکار کے خلاف ہے یہ "پاک-مودی جنگ” ہے کیونکہ پاکستان کی قوم متحد ہے، جبکہ بھارت میں خود نریندر مودی کو عوامی سطح پر شدید مخالفت کا سامنا ہے ہندوستان کے لاکھوں مسلمان اور انصاف پسند شہری مودی کی متعصبانہ پالیسیوں کے خلاف سراپا احتجاج ہیں
مودی کا ماضی گواہ ہے کہ گجرات کے فسادات سے لے کر مقبوضہ کشمیر تک جہاں کہیں بھی مسلمان ہیں وہاں ان پر ظلم روا رکھا گیا۔ ہزاروں بے گناہ بھارتی مسلمانوں کا خون مودی کے ہاتھوں پر ہے۔ ایسے شخص سے خیر کی کوئی توقع نہیں رکھی جا سکتی اور افسوس کہ بعض عالمی طاقتیں اسے جمہوریت کا علمبردار سمجھ کر پذیرائی دے رہی ہیں
پاکستان میں بھی حالات کچھ مختلف نہیں۔ یہاں سیاست دانوں کو انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، اور قانون سازی کو "حقوقِ انسانیت” کا لبادہ اوڑھا کر استعمال کیا جا رہا ہے تاکہ مخالف آوازوں کو دبایا جا سکے معیشت کو طاقت کے ذریعے بہتر بنانے کا خواب ایک دھوکہ ہے اصل راستہ انصاف ہے، شفاف احتساب ہے، اور عوامی خدمت ہے
ہمیں اب فیصلہ کرنا ہوگا کہ ہم اس فرسودہ روایتی سیاست کا حصہ بنے رہنا چاہتے ہیں، یا ایک نئی سیاسی بیداری اور انقلاب کی طرف بڑھنا چاہتے ہیں پاکستان کو اب ایک ایسا نظام چاہیے جو انصاف پر مبنی ہو، نہ کہ ذاتی انتقام اور مفادات پر
ہم اس تحریر کے ذریعے اعلان کرتے ہیں کہ اگر حالات اسی نہج پر چلتے رہے، تو ہم خاموش نہیں رہیں گے۔ ہم اپنی قوم کے ساتھ کھڑے ہوں گے، اور ہر ایسے قانون، سازش، یا اقدام کے خلاف آواز بلند کریں گے جو اس قوم کے مفادات کے خلاف ہو۔ انقلاب کی ضرورت ہے اور وہ انقلاب اب دور نہیں :تحریر: مولانا فضل الرحمٰن